انس بن مالک رضی
اللہ عنہ
انس بن مالک رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ فقراء نے رسول
پاک صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت مبارک
میں ایک قاصد بھیجا
اس نے آپ کی
خدمت میں حاضر ہو
کر عرض کیا کہ
میں فقراء کا قاصد
ہوں
آپ نے فرمایا تو
جن کا قاصد ہے
میں انکو دوست رکھتا
ہوں
پھر اس نے فرمایا
کہ فقراء نے آپکی
خدمت میں عرض کیا
ہے کہ تمام خیر
اغنیاء کہ حصے میں
آگئ اور ہم محروم
رہ گئے
ایک روایت میں اس
طرح آیا ہے کہ
کہا یا رسول اللہ
جنت تو اغنیاء ہی
نے حاصل کرلی
وہ حج کرتے ہیں
اور ہم اس پر
قادر نہیں
وہ خیرات دیتے ہیں
اور ہمیں اس پر
دسترس نہیں
وہ غلام آذاد کرتے
ہیں اور ہمیں اسکی
استطاعت نہیں
وہ جب بیمار ہوتے
ہیں اپنا مال ذخیرہ
کرتے ہیں۔ یعنی اصدقہ
دیتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے سن کر
فرمایا۔ میری طرف سے
فقراء کو کہ دو
تم میں جو صابر
ہین اور ثواب کی
نیت رکھتے ہیں انکے
لیئے ۳ تین ایسے
خاص درجے ہیں جو
اغنیاء کے لیئے نہیں
پہلا درجہ یہ ہے
کہ جنت میں کچھ
یاقوت احمر کے ہیں
اور وہ اس قدر
بلند واقع ہیں کہ
جنت والے انہیں ایسا
دیکھینگے جیسا دنیا والے آسمان
کے تارے اور ان
میں سوائے پغمبر فقراء
شہید فقیر یا مومن
فقیر کہ
اور کوئی نا جائے
گا
دوسرا درجہ یہ ہے
کہ فقراء اغنیاء سع
پانچ سو ۵۰۰ سال
پہلے جنت میں جائنگے
تیسرا درجہ یہ ہے
کہ جب فقیر سُبْحَانَ
اللّهِ ، والْحَمْدُللّهِ ،
وَ لا اِلهَ اِلَّا
اللّهُ ، وَ اللّهُ
اَكْبَرُ ، وَ لا
حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ
اِلَّا بِاللّهِ اخلاص
سے کہتا ہے اور
غنی بھی اسکی مثل
کہتا ہے
تو یہ غنی فقیر
کی فضیلت اور ثواب
کو نہ پہنچے گا
چاہے غنی ان کلمات
کے ساتھ دس ہزار
۱۰،۰۰۰ درہم بھی خرچ
کردے اور کل نیک
عملوں میں اسی طرح
قیاس کرلو۔ جب قاصد
نے انہیں یہ خبر
سنائی تو
سب کہ سب خوشی
سے پکار اٹھے کہ
اللہ ہم راضی ہیں۔
ہم راضی ہیں۔ اللہ
نے موسَی عیہ سلام
کی طرف وحی بھیجی
کہ اے موسَی۔
میرے کچھ بندے ایسے
ہیں کہ اگر وہ
مجھ سے ساری جنت
کا سوال کریں تومیں
انہیں دے
دوں، اور اگر دنیا
میں سے کچھ مانگین
تو ہر گز نہ
دوں
اسلیئے
نہین کہ میری نظر
میں وہ حقیر ہین
بلکہ اسلیئے کہ میں
چاہتا ہوں کہ آخرت
میں انکے لیئے اپنی
عطائیں ذخیرہ کروں
اور دنیا سے انہیں
ایسا بچا وَں جیسے
چرواہا اپنی یبکریوں کو
بھیڑوں سے بچاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment
Say In comments....sallallahu alaika ya rasool allah