Friday, 30 October 2015

انس بن مالک رضی اللہ عنہ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فقراء نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں ایک قاصد بھیجا اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں فقراء کا قاصد ہوں
آپ نے فرمایا تو جن کا قاصد ہے میں انکو دوست رکھتا ہوں
پھر اس نے فرمایا کہ فقراء نے آپکی خدمت میں عرض کیا ہے کہ تمام خیر اغنیاء کہ حصے میں آگئ اور ہم محروم رہ گئے
ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ کہا یا رسول اللہ جنت تو اغنیاء ہی نے حاصل کرلی
وہ حج کرتے ہیں اور ہم اس پر قادر نہیں
وہ خیرات دیتے ہیں اور ہمیں اس پر دسترس نہیں
وہ غلام آذاد کرتے ہیں اور ہمیں اسکی استطاعت نہیں
وہ جب بیمار ہوتے ہیں اپنا مال ذخیرہ کرتے ہیں۔ یعنی اصدقہ دیتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا۔ میری طرف سے فقراء کو کہ دو تم میں جو صابر ہین اور ثواب کی نیت رکھتے ہیں انکے لیئے ۳ تین ایسے خاص درجے ہیں جو اغنیاء کے لیئے نہیں
پہلا درجہ یہ ہے کہ جنت میں کچھ یاقوت احمر کے ہیں اور وہ اس قدر بلند واقع ہیں کہ جنت والے انہیں ایسا دیکھینگے جیسا دنیا والے  آسمان کے تارے اور ان میں سوائے پغمبر فقراء شہید فقیر یا مومن فقیر  کہ اور کوئی نا جائے گا
دوسرا درجہ یہ ہے کہ فقراء اغنیاء سع پانچ سو ۵۰۰ سال پہلے جنت میں جائنگے
تیسرا درجہ یہ ہے کہ جب فقیر سُبْحَانَ اللّهِ ، والْحَمْدُللّهِ ، وَ لا اِلهَ اِلَّا اللّهُ ، وَ اللّهُ اَكْبَرُ ، وَ لا حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّهِ  اخلاص سے کہتا ہے اور غنی بھی اسکی مثل کہتا ہے
تو یہ غنی فقیر کی فضیلت اور ثواب کو نہ پہنچے گا
چاہے غنی ان کلمات کے ساتھ دس ہزار ۱۰،۰۰۰ درہم بھی خرچ کردے اور کل نیک عملوں میں اسی طرح قیاس کرلو۔ جب قاصد نے انہیں یہ خبر سنائی  تو سب کہ سب خوشی سے پکار اٹھے کہ اللہ ہم راضی ہیں۔ ہم راضی ہیں۔ اللہ نے موسَی عیہ سلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے موسَی۔
میرے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ مجھ سے ساری جنت کا سوال کریں تومیں انہیں  دے دوں، اور اگر دنیا میں سے کچھ مانگین تو ہر گز نہ دوں
اسلیئے نہین کہ میری نظر میں وہ حقیر ہین بلکہ اسلیئے کہ میں چاہتا ہوں کہ آخرت میں انکے لیئے اپنی عطائیں ذخیرہ کروں
اور دنیا سے انہیں ایسا بچا وَں جیسے چرواہا اپنی یبکریوں کو بھیڑوں سے بچاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Say In comments....sallallahu alaika ya rasool allah